در چارچوب برگزاری نشست کمیته مشترک همکاریهای کشاورزی ایران و پاکستان انجام میشود
گشایش افقهای تازه همکاری در کشاورزی/سیاستمدار کهنهکار پاکستانی در تهران
ایران و پاکستان؛ شریکان مکمل در زنجیره کشاورزی و غذای منطقهای خواهند شد؟
با سفر وزیر کشاورزی پاکستان به تهران، مناسبات فنی، تجاری و تحقیقاتی دو کشور وارد مرحلهای جدید میشود
به گزارش اتاق خبر تلویزیون اینترنتی کشاورزپلاس، روابط کشاورزی ایران و پاکستان در مسیر گسترش قرار گرفته است؛ جایی که رانا تنویر حسین، وزیر کشاورزی و امنیت غذایی پاکستان، با هدف تقویت امنیت غذایی و افزایش تعاملات فنی و تجاری، در رأس هیأتی بلندپایه وارد تهران شد.
این سفر رسمی 4 روزه، به دعوت «غلامرضا نوری قزلجه» همتای ایرانی وی، در چارچوب برگزاری نشست کمیته مشترک همکاریهای کشاورزی ایران و پاکستان انجام میشود؛ نشستی که انتظار میرود به تدوین نقشه راه تازهای برای توسعه همکاریها در حوزههای حیاتی همچون بذر، تولید، فناوری، و تجارت محصولات کشاورزی منجر شود.
تمرکز بر امنیت غذایی، تحقیقات و تجارت محصولات پایه
وزارت کشاورزی پاکستان اعلام کرده که افزایش همکاریهای فنی و تحقیقاتی با ایران از اولویتهای اصلی این سفر است. رانا تنویر حسین تأکید کرده که ارتقای ظرفیتهای بومی، مبادله فناوری، و رفاه کشاورزان در هر دو کشور، به عنوان محور گفتوگوهای دوجانبه مدنظر قرار دارد.
در همین راستا، بررسی راهکارهای بهبود عملکرد بذری، بهرهوری تولید، و تسهیل در تبادل فناوری و سرمایهگذاریهای نوین کشاورزی در دستورکار دو طرف قرار گرفته است.
تجارت کشاورزی؛ از برنج پاکستانی تا ماشینآلات ایرانی
ایران و پاکستان اگرچه مرز زمینی، مذهبی و فرهنگی مشترکی دارند، اما در سالهای اخیر، بخش کشاورزی یکی از زمینههای نسبتاً فعال در تجارت دوجانبه بوده است. طبق گزارشهای رسمی، بیشترین اقلام صادراتی پاکستان به ایران شامل برنج باسماتی، مرکبات، سبزی و صیفیجات، ذرت و گوشت حلال بوده است.
از سوی دیگر، ایران نیز علاقهمند به صادرات ماشینآلات، تجهیزات آبیاری، کودهای زیستی و نهادههای فناورانه به پاکستان است؛ تا جایی که پیشنهاد تهاتر محصولات کشاورزی با ماشینآلات ساخت ایران نیز در نشستهای پیشین میان طرفین مطرح شده است.
چالشها و پیشنهادها در مسیر مبادلات کشاورزی
یکی از موانع مهم در تجارت کشاورزی میان 2 کشور، مسائل مرتبط با پروتکلهای قرنطینهای و بهداشتی (SPS)، عدم نهاییشدن تحلیل ریسک آفات (PRA) برای برخی محصولات مانند ذرت، و تفاوت در استانداردهای کنترل کیفیت است.
در این سفر، انتظار میرود با تشکیل کمیته فنی مشترک دائمی، این موانع بهصورت ساختاری مورد رسیدگی قرار گیرد. طرف پاکستانی خواستار تسریع روند تأیید پرونده PRA ذرت و سادهسازی فرایند صادرات شده و در مقابل، طرف ایرانی نیز بر نظارت کیفی و تبادل اطلاعات فناورانه تأکید دارد.
سوابق همکاری و فرصتهای نو
ایران و پاکستان پیش از این نیز همکاریهایی در زمینه آموزش کشاورزان، پروژههای تحقیقاتی مشترک در حوزه آبیاری و مدیریت منابع طبیعی، و تبادل تجربه در تولید محصولاتی مانند زعفران، انبه، پسته و نیشکر داشتهاند.
ظرفیت جغرافیایی و اقلیمی مکمل 2 کشور، میتواند زمینهساز تعامل گستردهتر در حوزههایی چون کشاورزی قراردادی، کشاورزی فراسرزمینی، مدیریت منابع آب، صادرات مشترک به بازارهای ثالث (نظیر چین و کشورهای عربی) و استفاده از انرژیهای تجدیدپذیر در تولید کشاورزی باشد.
از گفتوگو تا اقدام
سفر وزیر کشاورزی پاکستان به ایران، بیش از آنکه یک دیدار رسمی معمول تلقی شود، حامل پیامی روشن برای 2 کشور و منطقه نیز است: همکاری راهبردی در کشاورزی، همسو با امنیت غذایی و تجارت پایدار، میتواند به یکی از ارکان اصلی روابط تهران – اسلامآباد تبدیل شود.
اگر این گفتوگوها با پیگیری نهادهای اجرایی و علمی دنبال شود، میتوان انتظار داشت که ایران و پاکستان بهجای رقابت، شریکان مکمل در زنجیره کشاورزی و غذای منطقهای شوند.
به گزارش کارشناسان اتاق خبر کشاورزپلاس، «رانا تنویر حسین» یک سیاستمدار کهنهکار و با تجربه است که بیش از 3 دهه در سطوح مختلف دولت و پارلمان پاکستان فعال بوده است. در حال حاضر، نقش محوری در سکانداری کشاورزی، امنیت غذایی، صنایع و تولید دارد و اقدامات او بهطرز چشمگیری معطوف به مدرنسازی، توسعه فناوری، همکاری بینالمللی و ارتقاء معیشت کشاورزان است.
******************
گزارش کشاورزپلاس به زبان اُردو:
ایران اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون کے نئے افق
رانا تنویر حسین کے تہران کے سرکاری دورے سے دوطرفہ تکنیکی، تحقیقی اور تجارتی تعلقات میں نیا باب کھلنے کی توقع
تہران – ایران اور پاکستان کے زرعی تعلقات توسیع کی راہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و زراعت رانا تنویر حسین ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ تہران پہنچے ہیں تاکہ غذائی تحفظ کو مضبوط بنانے اور زرعی شعبے میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ چار روزہ سرکاری دورہ ایرانی وزیر زراعت کی دعوت پر کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد ایران-پاکستان مشترکہ زرعی تعاون کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنا ہے۔ اس ملاقات میں بیج، پیداوار، ٹیکنالوجی اور زرعی مصنوعات کی تجارت جیسے اہم شعبوں میں تعاون کے نئے لائحہ عمل پر بات چیت متوقع ہے۔
خوراکی تحفظ، تحقیق اور بنیادی زرعی تجارت پر توجہ
پاکستان کی وزارت غذائی تحفظ کے مطابق، اس دورے کا مرکزی مقصد ایران کے ساتھ تکنیکی اور تحقیقی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ رانا تنویر حسین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دونوں ممالک میں مقامی صلاحیتوں کا فروغ، ٹیکنالوجی کا تبادلہ اور کسانوں کی فلاح و بہبود دوطرفہ مذاکرات کا محور ہوں گے۔
دونوں فریق بیجوں کی بہتری، پیداواری صلاحیت میں اضافہ، اور جدید زرعی سرمایہ کاری کے تبادلے جیسے امور پر تفصیلی گفت و شنید کریں گے۔
زرعی تجارت: باسمتی چاول سے ایرانی مشینری تک
اگرچہ ایران اور پاکستان مذہبی، ثقافتی اور زمینی سرحدیں مشترک رکھتے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں زرعی تجارت ایک فعال میدان رہا ہے۔ پاکستان سے ایران کو سب سے زیادہ برآمد ہونے والی زرعی اشیاء میں باسمتی چاول، ترشاوہ پھل، سبزیاں، مکئی اور حلال گوشت شامل ہیں۔
ایران کی جانب سے بھی زرعی مشینری، آبپاشی کا سامان، حیاتیاتی کھاد اور زرعی ٹیکنالوجی پاکستان کو فراہم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین زرعی مصنوعات کے بدلے ایرانی مشینری کی بارٹر تجارت کی تجویز بھی زیر غور آئی ہے۔
چیلنجز اور حل طلب تجاویز
دوطرفہ زرعی تجارت میں اہم رکاوٹیں قرنطینہ، SPS پروٹوکولز، اور مکئی جیسے اجناس کے لیے PRA (تحلیلِ خطرہ کی منظوری) کی عدم تکمیل ہیں۔
اس دورے کے دوران، مشترکہ تکنیکی کمیٹی کے قیام کی توقع ہے جو ان چیلنجز کو ساختی طور پر حل کرے گی۔ پاکستان نے مکئی کے لیے PRA فائل کی جلد منظوری اور تجارتی ضوابط میں نرمی کی درخواست کی ہے، جبکہ ایران معیار کی نگرانی اور تکنیکی معلومات کے تبادلے پر زور دے رہا ہے۔
تعاون کی تاریخ اور مستقبل کے مواقع
ایران اور پاکستان نے اس سے پہلے بھی کسانوں کی تربیت، آبی وسائل کے نظم و نسق، اور زعفران، آم، پستہ اور گنا جیسے زرعی اجناس کی تحقیق میں باہمی تعاون کیا ہے۔
دونوں ممالک کے جغرافیائی اور موسمی حالات ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں، جس سے کنٹریکٹ فارمنگ، سرحد پار کاشتکاری، مشترکہ برآمدات، اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
مذاکرات سے عمل تک
رانا تنویر حسین کا یہ دورہ ایک علامتی ملاقات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ اس پیغام کا حامل ہے کہ زرعی تعاون، غذائی تحفظ اور پائیدار تجارت ایران-پاکستان تعلقات میں ایک حیاتیاتی ستون بن سکتا ہے۔
اگر ان مذاکرات کو متعلقہ ادارے اور تحقیقی تنظیمیں سنجیدگی سے آگے بڑھائیں، تو ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ زرعی زنجیر کے تکمیلی شراکت دار بن سکتے ہیں۔
ماخذ: تلویزیون انٹرنیٹ کشاورزپلاس، ایران
(keshavarzplus.ir)
دیدگاه تان را بنویسید